ایک بڑی معذوری کے باوجود احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونااور اپنی کارکردگی کی بدولت اچھے بھلے لوگوں سے بھی آگے نکل جانابلاشبہ بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے معاشرے میں اپنے دم پر جینے کی ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں جو اپنی محرومیوں ،کمزوریوں اور خامیوں کو قبول کرتے ہیں اور دوسروں کامحتاج بننے کے بجائے اپنے زور بازو سے زندگی کا رُخ تبدیل کرتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رویہ بہت عام ہے جس میں ایک انسان اپنے دکھڑے سناکر دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتاہے۔یہاں اوپر والا ہاتھ بننے کے بجائے نیچے والا ہاتھ بننے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں محنت نہیں کرنی پڑتی اور بیٹھے بٹھائے سب کچھ مل جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں آپ کو ہر تیسرا شخص روتا ہوااور خودترسی کا شکار ملے گاجس کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ مجھے مظلوم ، بے بس اور لاچار سمجھیں اور کہیں :’’اوہ ، آپ کے ساتھ تو بڑی زیادتی ہوئی ہے۔‘‘ یادرکھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ اپنی محرومیوں کی داستان سناتے رہنا ہے۔یہ ایسی لت ہے کہ اگر ایک بار انسان کو لگ جائے تو پھر بڑی مشکل سے چھوٹتی ہے۔اس عادت کی وجہ سے انسان کا نقصان ہورہا ہوتاہے لیکن اس کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوتی ہے کہ اس کو یہ چیز محسوس ہی نہیں ہوتی ۔اس رویے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ بن جاتاہے۔
خودترسی(Self-pity) کا شکار شخص دراصل بہت زیادہ حساسیت والا انسان ہوتاہے۔حساسیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو دیکھتاہے اور سنتاہے اس کوشدید انداز میں محسوس کرتاہے ۔
حساسیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ جب کوئی برا واقعہ پیش آتاہے تو وہ اس کاا ثربڑے گہرے انداز میں محسوس کرلیتا ہے۔وہ اس واقعے کے مثبت پہلوکے بجائے منفی پہلو کو دیکھتاہے ۔یہاں پر شیطانی ذہن کام کرنا شروع کرتاہے اور اس کو یہ واقعہ بڑھا چڑھاکر دکھاتاہے۔اس کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتاہے اوراس کی زندگی میں رونما ہونے والے تمام مثبت اور اچھے کام اس کی نظروں سے روپوش ہوجاتے ہیں۔اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں جس کاشکراداکیاجاسکے۔وہ سمجھتاہے کہ’’ میں دنیا کاسب سے بدقسمت انسان ہوں ، کیوں کہ صرف میرے ساتھ ہی برا ہورہاہے۔لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ مجھے کتنے برے حالات کاسامنا ہے۔انھیں پتا ہی نہیں کہ میں کس قد ربیمار ہوں۔انھیں احساس ہی نہیں کہ میراتو والد بھی فوت ہوچکا ہے۔‘‘اس کی یہ سوچ اس کومجبور کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنے دکھڑے سناناشروع کردے ۔وہ ایسا ہی کرتاہے اور اس عادت میں اس کو عجیب لطف ملنے لگتاہے۔وہ جس سے بھی ملتاہے روتاہی ملتاہے ۔و ہ لوگوں کی نظروں میں خود کو مظلوم بنانے کی کوشش کرتاہے۔اس عادت سے وہ ان کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتاہے۔وہ لوگوں کے منہ سے اپنے لیے یہ جواز بھی کہلوانا چاہ رہاہوتاہے کہ ہاں بھائی! تم بالکل حق پرہو۔اس رویے سے دراصل وہ اپنی ذمہ داریوں اورنالائقیوں سے فرارحاصل کرنا چاہتاہے۔وہ ذاتی ذمہ داری قبول ہی نہیں کرنا چاہتا،اس کو بس ایک بیساکھی کی تلاش ہوتی ہے جس کے سہارے وہ اپنے آپ کوکھڑارکھ سکے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنی فریاد سنارہاہواور سننے والااس کو کہے کہ بھائی ! آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ یہ یہ کام کریں تو یہ جملہ سن کر ہی وہ بدک جاتاہے اور کہتاہے:’’نہیں آپ مجھے سمجھ ہی نہیں رہے۔‘‘خودترسی والے رویے سے وہ معاشرے کو یہ پیغام بھی دے رہاہوتاہے کہ مجھ سے کسی چیز کی توقع نہ رکھی جائے۔
خودترسی دراصل حسد کی ایک صورت بھی ہے۔ایسا شخص خدا کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا۔وہ ہروقت اسی سوچ میں رہتاہے کہ مجھے وہ چیزنہیں ملی جس کا میں مستحق تھا اور فلاں کو مل گئی۔اس پر شیطانی سوچ حاوی ہوجاتی ہے جو اس کومظلوم اور دوسروں کو ظالم بناکر پیش کرتی ہے۔ایسے لوگ انا میں مبتلا ہوتے ہیں۔انسان جب اناپرست بن جاتاہے توپھر اس کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔یہ اناکبھی احساس برتری کی صورت میں ظاہرہوتی ہے جس سے وہ متکبر بن جاتاہے اور کبھی احساس کمتری کی صورت میں ، جس کی وجہ سے وہ خودترسی کاشکارہوجاتاہے۔
آپ نے بھکاری کامشاہدہ کیا ہوگا۔ایک پیشہ ور بھکاری جب آپ کے سامنے ہاتھ پھیلاتاہے تو وہ اپنی باڈی لینگویج ،اپنے الفاظ اور چہرے کے تاثرات سے خود کو اس قدر قابل رحم اور قابل ترس بناکر پیش کرتاہے کہ انسان اس کو دوچار پیسے دے ہی دیتاہے۔یہی حال خودترسی کے شکار شخص کا بھی ہے۔وہ بھی اپنے حالات کارونا روکر آپ سے ہمدردی کی بھیک مانگ رہا ہوتاہے لیکن اس کو معلوم نہیں ہوتاکہ اس عادت کی وجہ سے وہ اپنی قدر ومنزلت کھوبیٹھتاہے۔انسانوں کی نظروں میں اس کی عزت کم ہوجاتی ہے۔جب لوگوں کو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ بندہ تو ہر وقت روتاہی رہتاہے تو وہ بھی پھر اس سے بچنے اورجان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
خود ترسی کاایک بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ اس سے انسان کی کارکردگی بالکل ہی زیروہوجاتی ہے۔کیوں کہ جب وہ یہ سوچ رکھتاہے کہ میرے ساتھ ہی ظلم کیوں ہورہا ہے تو پھر وہ اپنے کام اور اپنی ذمہ داریوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا اور اسی وجہ سے اس کی پروڈکٹیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔
خودترس انسان زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ۔کیوں کہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے خودتوقیری کا ہونا اور اپنی ذات میں معتبر ہونا بہت ضروری ہے۔جبکہ خودترس انسان اس خوبی سے محروم ہوتاہے۔جوانسان اپنے آپ کو
نہیں مانتاتودنیاکیسے اس کومانے گی؟
خودترس انسان خود کو بہتر کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھاتا کیوں کہ یہ پورے معاشرے سے گلہ مند ہوتاہے اور یہ چیزاسے خود کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہی نہیں کرتی۔
خودترس انسان مالی ترقی بھی نہیں پاسکتا۔کیوں کہ اگر وہ مالدار ہوجائے توپھر اپنی مظلومیت اور لاچارگی کی داستان کیسے سنائے گا۔
ایسے لوگوں کے تعلقات بھی کمزور ہوجاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے انسان کی امید بھی ان کی باتوں کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے ۔وہ بھی خود کو مایوس محسوس کرتاہے اور اسی وجہ سے لوگ ان س
0 Comments